Tuesday, 29 September 2015

اک رند بنا مولانا تو میں خوب ہنسا

میں خوب ہنسا

اک رِند بنا مولانا تو میں خوب ہنسا
اس نے چاہا مجھے سمجھانا تو میں خوب ہنسا
میں پہلے تو رویا واعظ کی دھمکی پر
چلتا ہی رہا مے خانہ تو میں خوب ہنسا
جس شہر سے تھی آبائے شہر کو ہمدردی
وہ شہر بنا ویرانہ تو میں خوب ہنسا
اک جیّد مفتئ شہر کی کافر سازی سے
آباد ہوا بت خانہ تو میں خوب ہنسا
جو شخص مرے گھر چوری کرتے پکڑا گیا 
وہ نکلا یار پرانا تو میں خوب ہنسا
اس دور میں کچھ رِندوں کی چھِینا جھَپٹی سے
جب ٹوٹ گیا پیمانہ تو میں خوب ہنسا
صحرا کو چھوڑ کے اپنے شہر پہنچنے پر
پچھتایا جب دیوانہ تو میں خوب ہنسا
اس چوکھٹ پر میں گیا تو پیر و مرشد کے
سب ٹھاٹھ ملے شاہانہ تو میں خوب ہنسا
جب کرسی چھُوٹی اور مفاد پرستوں سے
باقی نہ رہا یارانہ تو میں خوب ہنسا
کچھ لوگ قتیلؔ الرجک تھے موسیقی سے
چڑیوں نے نہ چھوڑا گانا تو میں خوب ہنسا

قتیل شفائی

1 comment: