پرانے مصلحت بِینوں میں آخر گھِر گیا تُو بھی
جو حربے آزمودہ ہیں وہی پھر آزما تُو بھی
یہ میرے ہمسفر تاریخ کو دہرا بھی لیتے ہیں
مری وحشت پہ ہنستا تھا، تماشا بن گیا تُو بھی
تجھے بھی زعم تھا خود پر، انا میری بھی خودسر تھی
تجھے جپتے رہے ہم اسمِ اعظم کی طرح، لیکن
نوا کے سارے دروازے مقفّل کر گیا تُو بھی
زمانے کی ستم گاری ہے یا تیرا تغافل ہے
مَرے لفظوں کی صورت ہو گیا بے دست و پا تُو بھی
سلطان رشک
No comments:
Post a Comment