Saturday, 26 September 2015

جذبہ چھپا تھا یوں بھی خریدار میں بہت

جذبہ چھپا تھا یوں بھی خریدار میں بہت
چرچا رہا تھا حُسن کا بازار میں بہت
ان سے نظر مِلی تو خِرد دَم بخود ہوئی
یوں تو یگانہ ہم بھی تھے گُفتار میں بہت
قیمت تو کیا، نگاہِ خریدار تک نہیں
ہیں خواب یُوں تو کُوچہ و بازار میں بہت
اچھائی اور بُرائی کا محور ہے آدمی
شفاف ہے پہ داغ بھی کِردار میں بہت
اے ربِ ذوالجلال! تُو ان کی تو لاج رکھ
نادِم ہیں اشک، چشمِ گُنہگار میں بہت
آتی ہے کیا کہیں سے کوئی بھی نویدِ صبح
پڑھیے تو زخم چھَپتے ہیں اخبار میں بہت
اپنوں کو چھوڑیئے میاں خالدؔ کہ آج کل
ہیں فکر مند آپ کے اغیار میں بہت

محسن اسرار

No comments:

Post a Comment