اک خموشی ہے کہ سکتے کی طرح طاری ہے
آج کی شام طبیعت پہ بہت بھاری ہے
حوضِ کوثر میں ہو تلخی بھی ذرا سی یارب
ہم فقیروں کو ذرا عادتِ مے خواری ہے
دشمنی بندوں سے یزداں سے عقیدت اتنی
ہم نے دیکھا نہیں خورشید سے شبنم کا ملاپ
ان سے ملنے میں ذرا سی ہمیں دشواری ہے
جو خسارہ ہے وہ وجدان کا خمیازہ ہے
جو اذیت ہے وہ احساس کی بیداری ہے
دل میں شیریں سی چبھن رہتی ہے ہر وقت عدمؔ
یہ نہیں علم یہ صحت ہے کہ بیماری ہے
عبدالحمید عدم
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment