Tuesday 29 September 2015

اک خموشی ہے کہ سکتے کی طرح طاری ہے

اک خموشی ہے کہ سکتے کی طرح طاری ہے
آج کی شام طبیعت پہ بہت بھاری ہے
حوضِ کوثر میں ہو تلخی بھی ذرا سی یارب
ہم فقیروں کو ذرا عادتِ مے خواری ہے
دشمنی بندوں سے یزداں سے عقیدت اتنی
حضرتِ شیخ! یہ کس نوع کی عیاری ہے
ہم نے دیکھا نہیں خورشید سے شبنم کا ملاپ
ان سے ملنے میں ذرا سی ہمیں دشواری ہے
جو خسارہ ہے وہ وجدان کا خمیازہ ہے
جو اذیت ہے وہ احساس کی بیداری ہے
دل میں شیریں سی چبھن رہتی ہے ہر وقت عدمؔ
یہ نہیں علم یہ صحت ہے کہ بیماری ہے

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment