چمن میں کس نے کسی بے نوا کا ساتھ دیا
وہ بُوئے گُل تھی کہ جس نے صبا کا ساتھ دیا
دیا جو ساتھ تو پھر کس بلا کا ساتھ دیا
شکستِ غم نے ہر اک مُدعا کا ساتھ دیا
فروغِ بادہ نے رنگِ حیا کا ساتھ دیا
خیالِ یار تِرا شکریہ، رہِ غم میں
بس ایک تُو نے دلِ مُبتلا کا ساتھ دیا
نگاہِ شوق کے یہ حوصلے کوئی دیکھے
کہ ہر نظارۂ صبر آزما کا ساتھ دیا
تجھے خبر بھی نہیں ہے کہ دل کی دھڑکن نے
کہاں کہاں تِری آوازِ پا کا ساتھ دیا
دلِ خراب کی یہ سادہ لوحیاں، توبہ
جفا کے بعد بھی، اہلِ جفا کا ساتھ دیا
اب اس سے آگے وہ مسجد، یہ میکدہ تاباںؔ
یہاں تلک تو کسی پارسا کا ساتھ دیا
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment