Thursday 24 September 2015

یادوں کا پچھیاؤ؛ آج چلا پھر لوگو ایسا یادوں کا پچھیاؤ

یادوں کا پچھیاؤ

آج چلا پھر لوگو! ایسا، یادوں کا پچھیاؤ
جی چاہے ہے آنکھیں موندے ٹھور یہیں مر جاؤ
بِسری یاد کے آنگن میں یوں گھومے تیری پرِیت
رات کو جیسے جنگل میں کوئی گائے رسِیلا گِیت
ایسی یاد آئے ہے سکھیو! بھولی بِسری جوانی
جیسے ہری ہو پُروائی میں کوئی چوٹ پرانی
گونجے سمے کا سناٹا اور گہری ہووے رات
بھولی بِسری یادوں کی پھر باجت ہے بارات
بِرہ کی گہری رات اندھیری جس کا اور نہ چھور
بِسری یادوں کے سناٹے میں تیری یاد کا شور

پرتو روہیلہ

No comments:

Post a Comment