Tuesday 29 September 2015

کوئی نگاہ و دل کا خریدار ہی نہ تھا

کوئی نگاہ و دل کا خریدار ہی نہ تھا
ہم نے دکاں سجائی تو بازار ہی نہ تھا
لے دے کے ایک وصل کی خیرات مانگ لی
جیسے کچھ اور شوق کو آزار ہی نہ تھا
نایاب تھے گہر ہی کی مانند خِشت و سنگ
یا اس نگر میں کوئی گنہ گار ہی نہ تھا 
اک دوسرے کے غم میں تھے سب اس طرح شریک
جیسے کسی کو مجھ سے سروکار ہی نہ تھا
سب ساتھ لے کے آئے تھے اپنی متاعِ جاں
میری طرح وہاں کوئی دلدار ہی نہ تھا
وہ کیا بدلتے حُسن کا معیار اے امامؔ
اہلِ ہوس کے سامنے معیار ہی نہ تھا

مظہر امام

No comments:

Post a Comment