Tuesday 29 September 2015

میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے

میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
نقد عاقلی دے کر مے ملے تو سستی ہے
ہیں زمیں کے ذرے بھی سیرِ ماہ و انجم میں
کس قدر بلندی پر آج کل کی پستی ہے
کارواں کے دیوانے اس جگہ نہ منزل کر
شہرِ کم چراغاں ہے رہبروں کی بستی ہے
در بدر حرم والے سجدہ ریز ملتے ہیں
بت نہیں رہے لیکن ذوقِ بت پرستی ہے
میری کشتِ ویراں تک ابر ہے تو آئے گا
میں گھٹا سے کیوں پوچھوں تُو کہاں برستی ہے
طُور کچھ نہیں لیکن منکرِ تجلی سن
عشق ہے تو مستی ہے، حسن ہے تو ہستی ہے
مانعِ نوازش ہے اک حسیں تکلف سا
کچھ حیا طرازی ہے، کچھ حنا بدستی ہے
کاٹتی ہے تنہائی آرزو کے لمحوں میں
ناگ جیسے پالے ہیں، رات جیسے ڈستی ہے
لٹ رہے ہیں بے منت اب نشورؔ گنجینے
زندگی جو مہنگی ہے، شاعری جو سستی ہے

نشور واحدی

No comments:

Post a Comment