میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
نقد عاقلی دے کر مے ملے تو سستی ہے
ہیں زمیں کے ذرے بھی سیرِ ماہ و انجم میں
کس قدر بلندی پر آج کل کی پستی ہے
کارواں کے دیوانے اس جگہ نہ منزل کر
در بدر حرم والے سجدہ ریز ملتے ہیں
بت نہیں رہے لیکن ذوقِ بت پرستی ہے
میری کشتِ ویراں تک ابر ہے تو آئے گا
میں گھٹا سے کیوں پوچھوں تُو کہاں برستی ہے
طُور کچھ نہیں لیکن منکرِ تجلی سن
عشق ہے تو مستی ہے، حسن ہے تو ہستی ہے
مانعِ نوازش ہے اک حسیں تکلف سا
کچھ حیا طرازی ہے، کچھ حنا بدستی ہے
کاٹتی ہے تنہائی آرزو کے لمحوں میں
ناگ جیسے پالے ہیں، رات جیسے ڈستی ہے
لٹ رہے ہیں بے منت اب نشورؔ گنجینے
زندگی جو مہنگی ہے، شاعری جو سستی ہے
نشور واحدی
No comments:
Post a Comment