Tuesday 29 September 2015

موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں

موجوں کا عکس ہے خطِ جامِ شراب میں
یاں خون اچھل رہا ہے رگِ ماہتاب میں
باقی نہ تابِ ضبط رہی شیخ و شاب میں
ان کی جھلک بھی تھی میری چشمِ پُرآب میں
کیوں شکوہ سنج گردشِ لیل و نہار ہوں
اک تازہ زندگی ہے ہر اک انقلاب میں
وہ موت ہے کہ کہتے ہیں جس کو سکون سب
وہ عین زندگی ہے ہے جو ہے اضطراب میں
اتنا ہوا دلیل تو دریا کی بن سکے
مانا کہ اور کچھ نہیں موج و حباب میں
اس دن بھی میری روح تھی محوِ نشاطِ دید
موسیٰؑ الجھ گئے تھے سوال و جواب میں
دوزخ بھی ایک جلوۂ فردوس سے حسن ہے
جو اس سے بے خبر ہیں وہی ہیں عذاب میں
میں اضطرابِ شوق کہوں یا جمالِ دوست
اک برق ہے جو کوند رہی ہے نقاب میں

اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment