ترے قریب ترے آستاں سے دور رہے
وہیں خیال رہا ہم جہاں سے دور رہے
قریب آئے تو خود جانِ اعتبار بھی تھے
وہی جو مدتوں وہم و گماں سے دور رہے
کسے یہ فکر، کہ انجامِ عشق کیا ہو گا
وہ حرفِ شوق جو تمہیدِ آرزو ٹھیرے
خدا کرے کہ مِری داستاں سے دور رہے
یہ مے کدہ ہے، یہاں مہر و ماہ پلتے ہیں
کہو کہ خیمۂ ظلمت یہاں سے دور رہے
وہ ہم سفر بھی نہایت عزیز ہیں تاباںؔ
چلے جو ساتھ، مگر کارواں سے دور رہے
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment