رہنے دے تکلیفِ توجہ دل کو ہے آرام بہت
ہجر میں تیری یاد بہت ہے غم میں تیرا نام بہت
بات کہاں ان آنکھوں جیسی، پھول بہت ہیں، جام بہت
اوروں کو سرشار بنائیں، خود ہیں تشنہ کام بہت
کچھ تو بتاؤ فرزانو! دیوانوں پر کیا گزری
شغلِ شکستِ جام و توبہ پہروں جاری رہتا ہے
ہم ایسے ٹھکرائے ہوؤں کو مے خانے میں کام بہت
دل شکنی و دلداری کی رمزوں پر ہی کیا موقوف
ان کی ایک اک جنبشِ لب میں پنہاں ہیں پیغام بہت
آنسو جیسے بادہ رنگیں، دھڑکن جیسے رقصِ پری
ہائے یہ تیرے غم کی حلاوت رہتا ہوں خوش کام بہت
اس کے تقدس کے افسانے سب کی زباں پر جاری ہیں
اس کی گلی کے رہنے والے پھر بھی ہیں بدنام بہت
زخم بہ جاں ہے، خاک بسر ہے، چاک بداماں ہئ عنوؔاں
بزمِ جہاں میں رقصِ وفا پر ملتے ہیں انعام بہت
عنوان چشتی
No comments:
Post a Comment