ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پَل کا تُو، گئی پَل کا میں
سو ہیں اب کہاں، مگر اب کہاں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
مِری جان وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتۂ کارواں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
تُو مِرے بدن سے جھلک بھی لے، میں تِرے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
گلۂ فراق تو کیوں بھَلا، طلبِ وصال تو کیا بھَلا
کسی آگ کا تھے بس اِک دھواں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment