Tuesday 22 September 2015

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لیے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لیے کریں
دنیا کی بے رُخی تو نہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لیے کریں
تا عمر قربتوں کا تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لیے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لیے کریں
جن کے لیے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لیے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لیے کریں
ساجدؔ کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملالِ شامِ الم کس لیے کریں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment