Wednesday 23 September 2015

رستے میں شام ہو چکی قصہ تمام ہو چکا

رستے میں شام ہو چکی قصہ تمام ہو چکا
جو کچھ بھی تھا اے زندگی وہ تیرے نام ہو چکا
کب کا گزر گئی وہ شب جس میں کسی کا نور تھا
کب کی گلی میں دھوپ ہے، جینا حرام ہو چکا
پھرتے رہیں نگر نگرم کوچہ بہ کوچہ در بہ در
اپنے خیال جل چکے، اپنا سلام ہو چکا
رات میں باقی کچھ نہیں نیند میں باقی کچھ نہیں
اپنا ہر ایک خواب تو نذرِ عوام ہو چکا
اس کے لبوں کی گفتگو کرتے رہے سبو سبو
یعنی سخن ہوئے تمام، یعنی کلام ہو چکا
عشق گر ایسا عشق ہے آنکھوں سے بہنے دو لہو
زیست گر ایسی زیست ہے، اپنا تو کام ہو چکا
رستے تمام ہو گئے اس کی گلی کے آس پاس
یعنی خرام ہو چکا، یعنی قیام ہو چکا

فہیم شناس کاظمی

No comments:

Post a Comment