Monday 21 September 2015

جانے کس دیس گئے یار ہمارے سارے

جانے کس دیس گئے یار ہمارے سارے
محو ہوتے ہی نہیں ذہن سے پیارے سارے
آدمی اپنی لکیروں سے الجھ پڑتا ہے
جب پھسل جاتے ہیں مُٹھی سے ستارے سارے
دل کا دریا کوئی شمشان ہے امیدوں کا
بھر گئے جلتی چِتاؤں سے کنارے سارے
تُو ہے ویسا کہ نہیں جیسا گماں میں آیا
یعنی اندازے غلط نکلے ہمارے سارے
ایسے بے لوث تو دل والے ہی ہو سکتے ہیں
ورنہ دامن میں بھرے کون شرارے سارے
پھر بھی کاغذ پہ تیرا عکس مکمل نہ ہوا
جس قدر رنگ دھنک میں تھے اُبھارے سارے
اک محبت کہ پس انداز ہوئی ہے، ورنہ
جتنے لمحے بھی کمائے گئے ہارے سارے
تم تو کہنے کو بھی اک پل کو ہمارے نہ ہوئے
ہم دل و جاں سے ہیں سو بار تمہارے سارے
ہم نے اک عمر جلائے ہیں سرِ بام چراغ
ہم سمجھتے ہیں ہواؤں کے اشارے سارے

واجد امیر

No comments:

Post a Comment