Sunday 27 September 2015

غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا

غم کا صحرا نہ ملا، درد کا دریا نہ مِلا
ہم نے مرنا بھی جو چاہا تو وسِیلہ نہ مِلا
مدتوں بعد جو آئینے میں جھانکا ہم نے
اتنے چہرے تھے وہاں اپنا ہی چہرہ نہ مِلا
تشنہ لب یوں تو زمانے میں کبھی ہم نہ رہے
پیاس جو دل کی بجھا دیتا وہ دریا نہ مِلا
مِل گئے ہم کو صنم خانوں میں کتنے ہی خدا
ڈھونڈنے پر کوئی بندہ ہی خدا کا نہ مِلا
آپ کے شہر میں پیڑوں کا نہیں کوئی شمار
دو گھڑی رکنے کو لیکن کہیں سایہ نہ مِلا
مستحِق ہم تِری رحمت کے نہ ہونے پائے
تیری دنیا میں کوئی عذر خطا کا نہ مِلا
خودنمائی کے بھی اس دور میں ہم کو ساحرؔ
کوئی قاتِل نہ مِلا، کوئی مسِیحا نہ مِلا

ساحر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment