Monday 21 September 2015

کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا

کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا
سوچی ہوئی باتوں کو سوچا تو بہت رویا
دل میرا ہر اک شے کو آئینہ سمجھتا ہے
ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپتی ہو راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
آساں تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جس موج سے ابھرا تھا اس موج پہ کیا گزری
صحرا میں وہ بادل کا ٹکڑا تو بہت رویا
ہم تیری طبیعت کو خورشیدؔ! نہیں سمجھے
پتھر نظر آتا تھا، رویا تو بہت رویا 

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment