Monday 21 September 2015

وہ دیکھ کر نہ رکا اور گزر گئے ہم بھی

وہ دیکھ کر نہ رکا اور گزر گئے ہم بھی
دعائے شب کی طرح بے اثر گئے ہم بھی
سماعتوں کے جزیرے تلک رسائی نہ تھی
وہ بے خبر ہی رہا، بے ثمر گئے ہم بھی
یہی کہیں گے کہ اک خوف تھا بلندی کا
کسی کے بامِ نظر سے اتر گئے ہم بھی
ملا وہ زورِ تصور، سبک ارادہ ہوئے
مصیبت آنے سے پہلے ہی ڈر گئے ہم بھی
شناوری پہ کہیں حرف ہی نہ آ جائے
اگر تراش کے دریا، گزر گئے ہم بھی
خدا بھی تو کبھی یکسانیت سے اکتائے
کمال کون سا ہو گا، جو مر گئے ہم بھی
صدائے خواب تو تھے ایسے چُور چُور ہوئے
غبار بن کے فضا میں بکھر گئے ہم بھی

شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment