وہ دیکھ کر نہ رکا اور گزر گئے ہم بھی
دعائے شب کی طرح بے اثر گئے ہم بھی
سماعتوں کے جزیرے تلک رسائی نہ تھی
وہ بے خبر ہی رہا، بے ثمر گئے ہم بھی
یہی کہیں گے کہ اک خوف تھا بلندی کا
ملا وہ زورِ تصور، سبک ارادہ ہوئے
مصیبت آنے سے پہلے ہی ڈر گئے ہم بھی
شناوری پہ کہیں حرف ہی نہ آ جائے
اگر تراش کے دریا، گزر گئے ہم بھی
خدا بھی تو کبھی یکسانیت سے اکتائے
کمال کون سا ہو گا، جو مر گئے ہم بھی
صدائے خواب تو تھے ایسے چُور چُور ہوئے
غبار بن کے فضا میں بکھر گئے ہم بھی
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment