Monday 21 September 2015

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا
آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا
جس گھڑی آیا پلٹ کر اک مِرا بِچھڑا ہوا
عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شہزادہ لگا
ہر گھڑی تیار ہے دل جان دینے کے لیے
اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا
کارواں ہے یا سرابِ زندگی ہے کیا ہے یہ
ایک منزل کا نشاں اک اور ہی جادہ لگا
روشنی ایسی عجب تھی رنگ بھومی کی نسیمؔ
ہو گئے کردار مدغم، کرشن بھی رادھا لگا

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment