Saturday, 31 August 2013

کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوۓ لوگ

کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ
اپنے اِمروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ
تجھ سے بے رخ ہوئے جب آئینہ خانے تیرے
کام آئے ہیں یہی دل کے سنوارے ہوئے لوگ
سلسلے جوڑتے رہتے ہیں سخن کے کیا کیا
یہ تری چپ، ترے لہجے کے پکارے ہوئے لوگ

نظر سے جستجو بے کار نکلی

نظر سے جستجو بے کار نکلی
خود اپنے آپ سے دو چار نکلی
خِرد کو تھی یہ خوش فہمی کہ دَر ہے
پسِ دِیوار بھی، دِیوار نکلی
مجھے حسرت تھی جس تابِ سخن کی
وہی شے اس کو بھی درکار نکلی

بھلا دو رنج کی باتوں میں کیا ہے

بھلا دو رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے
بہت تاریک دن ہے، پھر بھی دیکھو
اجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
نہیں پاتیں جسے بیدار نظریں
خدایا! یہ میرے خوابوں میں کیا ہے

ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے

ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے
ساقی سے مِلے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے
کچھ اسکے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے
اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈُوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

اثبات یقیں نفی گماں کچھ نہیں کرتے

اثباتِ یقیں، نفی گماں، کچھ نہیں کرتے
بس جیتے ہیں ہم لوگ میاں کچھ نہیں کرتے
ڈرتے ہیں دھڑکتا ہوا دل بند نہ ہو جائے
جب دیکھتے ہیں آہ و فغاں کچھ نہیں کرتے
سب چھوڑ دیا گردشِ افلاک پہ ہم نے
اب ترکِ زماں، نقلِ مکاں کچھ نہیں کرتے

تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے

تم سے الفت کے تقاضے، نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی، کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم، کہ یہ اندوہ نصیب
درد بھی دل میں نہ ہوتا، تو کراہے جاتے
کاش، اے ابرِ بہاری! تِرے بہکے سے قدم
میری اُمیّد کے صحرا میں بھی، گاہے جاتے

راستے میں نہ آ شجر کی طرح

راستے میں نہ آ شجر کی طرح
مِل کہیں دوپہر میں گھر کی طرح
ہم اسے دیکھنے کہاں جائیں
ساتھ رہتا ہو جو نظر کی طرح
لوگ دوڑے گھروں کی سمت آخر
شام آئی بری خبر کی طرح

عدو کا ذکر نہیں دوستوں کا نام نہیں

عدو کا ذکر نہیں دوستوں کا نام نہیں
زباں پہ آج کوئی حرفِ انتقام نہیں
در و دریچہ کے داغ و چراغ اپنی جگہ
مجھے جلا کے نہ گزری تو شام شام نہیں
چلو ٹھہر نہیں سکتے، گزر تو سکتے ہو
کہیں کہیں سے شکستہ ہے، دل تمام نہیں

کھلی کھلی سی محبت ہرا بھرا دکھ ہے

 کھلی کھلی سی محبت ہرا بھرا دُکھ ہے
 مِرے خدا! یہ جدائی، کمال کا دکھ ہے
 ابھی رہے گا یہ عالم لپٹ کے رونے کا
 وداع یار درختو! نیا نیا دکھ ہے
 ابهی سے لوگ دعا دے رہے ہیں جینے کی
 ابهی تو میں نے کہا بهی نہیں کہ کیا دکھ ہے

Thursday, 29 August 2013

پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا

پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا 
 دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا
 تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں 
 شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
 پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

راستے میں ٹھکانہ پڑتا ہے

راستے میں ٹھکانہ پڑتا ہے
 اِس لیے جانا آنا پڑتا ہے
 آگ دل میں بھڑک رہی ہو اگر
 آنسوؤں سے بُجھانا پڑتا ہے
 خواب کتنا بھی دلفریب سہی
 خواب کو بھُول جانا پڑتا ہے

شب ہجراں تھی جو بسر نہ ہوئی​

شبِ ہجراں تھی جو بسر نہ ہوئی​
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی​
ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے​
کیوں ملاقات عمر بھر نہ ہوئی​
اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے​
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی​

ابتدا تھی مآل تھا کیا تھا​

ابتداء تھی، مآل تھا، کیا تھا​
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا​
عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا​
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا​
تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے​
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا​

اداس شام دل سوگوار تنہائی

اداس شام دل سوگوار تنہائی
ہر ایک سمت ہوئی بے کنار تنہائی
بچھڑ گئے ہیں سبھی برگ و بار پیڑوں سے
سسک رہی ہے لبِ شاخسار تنہائی
تمہارے نقشِ قدم پر جبین رکھ رکھ کر
رہی ہے دیر تلک اشکبار تنہائی

عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا​

عدیمؔ میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا​
میں یہ سمجھتا رہا، اس نے ایک وار کِیا
عدیمؔ دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا​
جو شخص پیار کے قابل تھا، اس کو پیار کِیا​
پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا​
یہ کام اس کے لیے ہم نے بار بار کِیا​

ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدۂ تر بھی​

ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدۂ تر بھی​
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی​
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی، اور بھنور بھی​
اے بحرِ سخن، چند صدف، چند گہر بھی​
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا​
پڑ جائے اگر اس پہ تِری ایک نظر بھی​

کھینچا گیا ہے کس کو ابھی دار کی طرف​

کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دار کی طرف​
منصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف​
معلوم ہو تجھے کہ ہے دست بریدہ کیا​
انگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف​
قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصور​
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف​

Wednesday, 28 August 2013

لیلیٰ ترے صحراؤں میں محشر ہیں ابھی تک

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

لیلیٰ ترے صحراؤں میں محشر ہیں ابھی تک
اور بخت میں ہر قیس کے پتھر ہیں ابھی تک
پھر ننگِ وطن جعفر و صادق ہوئے سردار
میسور و پلاسی کے وہ منظر ہیں ابھی تک
نیزوں پہ حسینؓ آج بھی کرتے ہیں تلاوت
اور دستِ یزیدی میں بھی خنجر ہیں ابھی تک

دل قلندر ہے جگر عشق میں تندور میاں

دل قلندر ہے جگر عشق میں تندُور میاں
 شوقِ دیدار روانہ ہے سُوئے طُور میاں
 گلبدن شعلۂ افلاس میں جل جاتے ہیں
 جسم بازار میں بِک جاتے ہیں مجبُور میاں
دل کے زندانوں سے آئیگی انالحق کی صدا
 شہرِ آشوب سے اُٹھے کو ہے منصُور میاں

سب کو ادراک زیاں گر کے سنبھلنے سے ہوا

سب کو ادراکِ زیاں گِر کے سنبھلنے سے ہُوا
 مجھ کو احساس تِرے دَر سے نکلنے سے ہوا
کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار
 حال زنداں کا یہ اک میرے نکلنے سے ہوا
 کوئی رازِ دلِ کہسار نہ کھلنے پایا
روز اعلان تو چشموں کے ابلنے سے ہوا

بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے

 بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تُو چاہے
 خرید لوں یہ نقلی دوا، جو تُو چاہے
تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
 جو تُو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تُو چاہے
 جب یک سانس گِھسے، ساتھ ایک نوٹ پِسے
 نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تُو چاہے

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں

رات ڈھلنی تو ہے، رت بدلنی تو ہے

اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے
خیمۂ خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے ،رُت بدلنی تو ہے
کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے
دامنِ دل ہو یا سایۂ چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی خواہش مچلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے

پرندے اجڑے ہوئے آشیاں پہ بیٹھے ہوئے

پرندے اُجڑے ہوئے آشیاں پہ بیٹھے ہوئے
زمیں کو دیکھتے ہیں آسماں پہ بیٹھے ہوئے
وہ خوابِ امن دکھایا گیا کہ خوش ہیں بہت
ہم اپنے عہد کے آتش فشاں پہ بیٹھے ہوئے
مژہ سے قطرۂ خُوں کی طرح ٹپکتے ہیں
ستارے کشتئ آبِ روں پہ بیٹھے ہوئے

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف آتا ہے اُمید ہی رَستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا
ممکن ہے کہ منزل کا تعیّن ہی غلط ہو
اب تک تو مِری راہ کا پتھر نہیں بدلا

میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کھلا

میری طلب، مِری رُسوائیوں کے بعد کُھلا
وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا
وہ میرے ساتھ ہے اور مُجھ سے ہمکلام بھی ہے
یہ ایک عمر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا
میں خود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہوا
تِرا وجود بھی پرچھائیوں کے بعد کُھلا

جنہیں خوابوں سے انکاری بہت ہے

جنہیں خوابوں سے انکاری بہت ہے
ان آنکھوں میں بھی بیداری بہت ہے
نہایت خوبصورت ہے وہ چہرہ
مگر جذبات سے عاری بہت ہے
اُسے میں یاد رکھنا چاہتا ہوں
مگر اِس میں بھی دشواری بہت ہے

یہ زمیں اپنی جگہ اور آسماں اپنی جگہ

یہ زمیں اپنی جگہ، اور آسماں اپنی جگہ
میں بھی ہوں موجود انکے درمیاں اپنی جگہ
لذتِ محرومئ اشیاء کی سرشاری الگ
کام دیتا ہے بہت کارِ زیاں اپنی جگہ
جو دکھائی دے رہی تھی آگ کب کی جل بُجھی
جو نظر آتا نہیں ہے وہ دُھواں اپنی جگہ

لذت ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی

لذّتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی
قرض تھی یادِ رفتگاں، رات حساب لے گئی
جامِ سفال پر مِری کتنی گرفت تھی، مگر
آب و ہوائے روز و شب، خانہ خراب لے گئی
صحبتِ ہجر میں گِھری جنبشِ چشمِ سُرمگیں
خود ہی سوال کر گئی ،خود ہی جواب لے گئی

حکایت سفر عمر رائیگاں سے الگ

حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ
تِرے وصال کی خُوشبو ہے جسم و جاں سے الگ
کہاں پڑاؤ کریں گے، کہاں پہ ٹھہریں گے
کہ تُو زمیں سے جُدا اور میں آسماں سے الگ
گروہِ ابَر نے طوفان کو جگانا ہے
پھر اسکے بعد ہوا بھی ہے بادباں سے الگ

فراق یاراں عجیب رت ہے، نہ سوئے صحرا، نہ گھر گئے ہیں

فراقِ یاراں عجیب رُت ہے، نہ سُوئے صحرا، نہ گھر گئے ہیں
ہم اہلِ ہجراں کی جو روایت تھی، اس سے بالکل مُکر گئے ہیں
عجیب وحشت نژاد آنکھیں تھیں، نیند کے حاشیے کھنچے تھے
عجیب خوابوں کا سلسلہ تھا، چراغ جیسے گزر گئے ہیں
جو پڑھ سکو تو انہیں بھی پڑھنا، بڑے مزے کی حکایتیں ہیں
ہم اپنی تنہائیوں کو لوحِ ہوا پہ تحریر کر گئے ہیں

کبھی کسی کی طرف ہے، کبھی کسی کی طرف

کبھی کسی کی طرف ہے، کبھی کسی کی طرف
وہ دستِ غیب کم و بیش ہے سبھی کی طرف
یہاں ملائے رکھو اپنے اپنے سانس کی لَو
ہوا کا زور زیادہ ہے روشنی کی طرف
چھپی ہے مُہلتِ یک دو نفس میں وہ ساعت
جو آدمی کو بلاتی ہے زندگی کی طرف

اچھا ہے اسی صورت حالات میں رہنا

اچھا ہے اسی صورتِ حالات میں رہنا
دن شہر میں اور رات مضافات میں رہنا
ہر رات ستاروں کو زمیں پر لئے پھرنا
ہر صبح کہیں حمد و مناجات میں رہنا
اس بھیڑ میں گردِ در و دیوار ہے اتنی
ممکن ہی نہیں ہاتھ کسی ہات میں رہنا

فریب جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے

فریبِ جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے
لگا ہوا ہے جو دربار ختم ہونے کو ہے
کہانی کار نے اپنے لیے لکھا ہے جسے
کہانی میں وہی کردار ختم ہونے کو ہے
سمجھ رہے ہو کہ تم سے ہے گرمئ بازار
سو اب یہ گرمئ بازار ختم ہونے کو ہے

چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے

چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے
دل اُترتا ہی نہیں تختِ سلیمانی سے
پہلے تو رات ہی کاٹے سے نہیں کٹتی تھی
اور اب دن بھی گزرتا نہں آسانی سے
ہم نے اک دوسرے کے عکس کو جب قتل کیا
آئینہ دیکھ رہا تھا ہمیں حیرانی سے

وسعت ہے وہی، تنگئ افلاک وہی ہے

وُسعت ہے وہی، تنگئ افلاک وہی ہے
جو خاک پہ ظاہر ہے، پسِ خاک وہی ہے
اِک عمر ہوئی موسمِ زنداں نہیں بدلا
روزن ہے وہی، مطلعِ نمناک وہی ہے
کیا چشمِ رفُوگر سے شکایت ہو کہ اب تک
وحشت ہے وہی، سینۂ صد چاک وہی ہے

یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں

یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں
وہ گفتگو در و دیوار کرنا چاہتے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ گزرے گا اِک سیلِ فنا
سو ہم تمہیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرمِ خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں

ہم دل میں تیری چاہ زیادہ نہیں رکھتے

ہم دل میں تیری چاہ زیادہ نہیں رکھتے
لیکن تجھے کھونے کا ارادہ نہیں رکھتے
کچھ ایسے سُبک سَر ہوئے ہم اہلِ مسافت
منزل کے لیے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے
وہ تنگئی خلوت ہوئی اب تیرے لیے بھی
دل رکھتے ہوئے، سینہ کشادہ نہیں رکھتے

وہ جو آئے تھے بہت منصب و جاگیر کے ساتھ

وہ جو آئے تھے بہت منصب و جاگیر کے ساتھ
کیسے چُپ چاپ کھڑے ہیں تری تصویر کے ساتھ
صرف زِنداں کی حکایت ہی پہ موقوف نہیں
ایک تاریخ سفر کرتی ہے زنجیر کے ساتھ
اب کے سُورج کی رہائی میں بڑی دیر لگی
ورنہ میں گھر سے نکلتا نہیں تاخیر کے ساتھ

مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے

مثالِ دستِ زُلیخا  تپاک چاہتا ہے 
یہ دل بھی دامنِ یوسفؑ ہے چاک چاہتا ہے 
دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر 
اسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے 
فسانہ گو بھی کرے کیا کہ ہر کوئی سرِ بزم 
مآلِ قصۂ دل دردناک چاہتا ہے 

تجھے کیا خبر کہ جاناں

تجھے کیا خبر کہ جاناں 

تُو نہ تھی کوئی سرائے
کہ میں رات بھر ٹھہر کے
سفر اختیار کرتا
میں نہ تھا کوئی مسافر
کہ جو گھر نگر کو تَج کر
کہیں اور پیار کرتا

جب تری یاد کے جگنو چمکے

جب تِری یاد کے جگنو چمکے
دیر تک آنکھ میں آنسو چمکے
سخت تاریک ہے دِل کی دُنیا
ایسے عالم میں اگر تُو چمکے
ہم نے دیکھا، سرِ بازارِ وفا
کبھی موتی، کبھی آنسو چمکے

ہائے اس برق جہاں سوز پر آنا دل کا

ہائے اس برقِ جہاں سوز پر آنا دل کا
سمجھے جو گرمئ ہنگامہ جلانا دل کا
ہے تِرا سلسلۂ زُلف بھی کتنا دل بند
پھنسنے سے پہلے بھی مشکل تھا چھٹانا دل کا
دیکھتے ہم بھی کہ آرام سے سوتے کیوں کر
نہ سنا تم نے کبھی ہائے فسانہ دل کا

سانس کے شور کو جھنکار نہ سمجھا جائے

سانس کے شور کو جھنکار نہ سمجھا جائے
ہم کو اندر سے گرفتار نہ سمجھا جائے
اس کو رَستے سے ہٹانے کا یہ مطلب تو نہیں
کسی دیوار کو دیوار نہ سمجھا جائے
میں کسی اور حوالے سے اسے دیکھتا ہوں
مجھ کو دنیا کا طرفدار نہ سمجھا جائے

یار کو ہم نے جا بجا دیکھا

یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر، کہیں چھپا دیکھا
کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی، کہیں بقا دیکھا
کہیں بولا بلیٰ وہ کہہ کے الست
کہیں بندہ، کہیں خدا دیکھا

کہیں آرزوئے سفر نہیں کہیں منزلوں کی خبر نہیں

کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے، کہیں پا نہیں کہیں پَر نہیں
مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی دَر نہیں
کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلے یا زمیں کہیں سے اُبل پڑے
 ہم اسیرِ صورت حال ہیں، ہمیں حادثات کا ڈر نہیں

تعلقات میں یہ ایک سانحہ بھی ہے

تعلقات میں یہ ایک  سانحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے
یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے
کوئی بھی پُل ہو، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے

وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا

وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے، نفرت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
دیتے ہیں اجالے میرے سجدوں کی گواہی
میں چھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا

یاران رفتہ آہ بہت دور جا بسے

یارانِ رفتہ آہ، بہت دور جا بسے
دل ہم سے رک گیا تھا انہوں کا جدا بسے
کوچے میں تیرے ہاتھ ہزاروں بلند ہیں
ایسے کہاں سے آ کے یہ اہلِ دعا بسے
کرتا ہے کوئی زیبِ تن اپنا وہ رشکِ گُل
پھولوں میں جب تلک کہ نہ اس کی قبا بسے

کیسے چھپاؤں راز غم دیدہ تر کو کیا کروں

کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں
غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں
پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں
شورشِ‌ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں
حُسن کو تیرے کیا کہوں، اپنی نظر کو کیا کروں

آنکھوں میں کوئی خواب اترنے نہیں دیتا

آنکھوں میں کوئی خواب اُترنے نہیں دیتا
یہ دل کہ مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا
بچھڑے تو عجب پیار جتاتا ہے خطوں میں
مل جائے تو پھر حد سے گزرنے نہیں دیتا
وہ شخص خزاں رُت میں محتاط رہے کتنا
سوکھے ہوئے پھولوں کو بکھرنے نہیں دیتا

Monday, 26 August 2013

اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا

اول تو تِرے کوچے میں آنا نہیں ملتا
آؤں تو کہیں تیرا ٹھکانا نہیں ملتا
ملنا جو مِرا چھوڑ دیا تُو نے تو مجھ سے
خاطر سے تِری سارا زمانا نہیں ملتا
آوے تو بہانے سے چلا شب مِرے گھر کو
ایسا کوئی کیا تجھ کو بہانا نہیں ملتا

اب کہیں کوچۂ بے مہر سے نکلا جائے

اب کہیں کوچۂ بے مہر سے نکلا جائے
 دل یہ کہتا ہے کہ اِس شہر سے نکلا جائے
 کب سے پردیس کا سورج ہے سوا نیزے پر
 چِلچلاتی ہوئی دو پہر سے نکلا جائے
دل گرِفتہ ہے تو ماحول بھی افسردہ ہے
 سانس لینے کے لئے شہر سے نکلا جائے

ہر طرف موجۂ خوشبو ہے مگر اب وہ کہاں

ہر طرف موجۂ خوشبو ہے، مگر اب وہ کہاں
ذکر اس شوخ کا ہر سُو ہے، مگر اب وہ کہاں
قیس و لیلیٰ کے طرفدار نے منہ موڑ لیا
خوں فشاں دیدۂ آہو ہے، مگر اب وہ کہاں
جانے والے سے رہ و رسمِ مسیحائی تھی
تیر سینے میں ترازو ہے، مگر اب وہ کہاں

یوں بھی جھکتی نہیں اس دل کی جبیں اور کہیں

یوں بھی جُھکتی نہیں اس دل کی جبیں اور کہیں
بس تُو ہی تُو ہے کوئی تجھ سا نہیں اور کہیں
دل تو ہر گام، تِرے کُوچے کا رُخ کرتا ہے
کھینچ لیتی ہے مگر ہم کو زمیں اور کہیں
کب تلک عکس بھروں شہر کے آئینوں میں
مجھ کو لے چل اے مِری زہرہ جبیں! اور کہیں

جب جب تری زمیں پہ اتارا گیا ہوں میں

جب جب تِری زمیں پہ اُتارا گیا ہوں میں
 سچ کی سزا میں گھیر کے مارا گیا ہوں میں
 تجھ کو خبر نہیں ہے کہ تیری تلاش میں
 سو بار زندگی سے گزارا گیا ہوں میں
پھر بیچنے چلے ہیں مِرے مہرباں مجھے
 پھر وقت کی بساط پہ ہارا گیا ہوں میں

رستوں کی لکیروں میں بھٹک جاؤ مرے ساتھ

رستوں کی لکیروں میں بھٹک جاؤ مِرے ساتھ
 نکلے ہو تو پھر دور تلک جاؤ مرے ساتھ
 روکو گے مئے عشق کو سینے میں کہاں تک
 ہونٹوں کے پیالوں سے چھلک جاؤ مرے ساتھ
 کلیوں کے لبوں پر ہیں محبت کے فسانے
موسم کا تقاضا ہے مہک جاؤ مرے ساتھ

جاگے ہیں بِسرے درد ہوا پھر آئی ہے

جاگے ہیں بِسرے درد ہوا پھر آئی ہے
جاناں کی گلی سے سرد ہوا پھر آئی ہے
جب گرد و بلا میں گلیوں سے گلزاروں تک
سب منظر ہو گئے زرد ہوا پھر آئی ہے
کیا مسجد، کیا بازار، لہو کا موسم ہے
کس قریہ سے بے درد ہوا پھر آئی ہے

آزار کو بہ کو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

آزارِ کُو بہ کُو بھی مِرے ساتھ ساتھ ہے
 میں ہوں تو جستجو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے
 مشکل ہے زندگی کی مسافت اگر تو کیا
 دل مطمئن ہے تو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے
 کچھ تیری آرزو نے مجھے در بدر کیا
 کچھ اپنی جستجو بھی مرے ساتھ ساتھ ہے

ان گنت عذاب ہیں رتجگوں کے درمیاں

ان گنت عذاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
درد بے حساب ہیں رتجگوں کے درمیاں
بن چکا ہے دل سوال اب کسی کے ہجر میں
اس پہ لا جواب ہیں رتجگوں کے درمیاں
اشک روک روک اب شل ہوئے ہیں حوصلے
ہر سمے عتاب ہیں رتجگوں کے درمیاں

گنتی

گنتی

یہ آٹھ پہروں شمار کرنا
 کہ سات رنگوں کے اِس نگر میں
 جہات چھ ہیں
 حواس خمسہ
 چہار موسم
 زماں ثلاثہ

Sunday, 25 August 2013

ہنگامہ محفل ہے کوئی دم کہ چلا میں

ہنگامۂ محفل ہے کوئی دَم کہ چلا میں
ساقی مِرے ساغر میں ذرا کم کہ چلا میں
کچھ دیرکی مہمان سرائے ہے یہ دنیا 
چلنا ہےتو چل اے مِرے ہمدم، کہ چلا میں
پھر بات ملاقات کبھی ہو کہ نہیں ہو 
پھر یار کہاں فرصتِ باہم کہ چلا میں

ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی​

ترا قُرب تھا کہ فراق تھا، وہی تیری جلوہ گری رہی​
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مِرے بدن میں بھری رہی​
تِرے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مِرے​
تو میں کس سے محوِ کلام تھا، تو یہ کس کی ہمسفری رہی
مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک تِرا دھیان تھا​
تو مثال تھی مِری آگہی، تو کمال بے خبری رہی​

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے​

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے​
ایسے بھی کیا تھے لعل و جواہر لگے مجھے​
لو ہو چکی شفا کہ مداوائے دردِ دل​
اب تیری دسترس سے بھی باہر لگے مجھے​
ترسا دیا ہے ابرِ گریزاں نے اس قدر​
برسے جو بوند بھی تو سمندر لگے مجھے​

جسم شعلہ ہے جبھی جامہ سادہ پہنا​

جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا​
میرے سورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا​
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے​
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا​​
خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں​
اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا​

تو کہ شمع شام فراق ہے دل نامراد سنبھل کے رو​

تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد!، سنبھل کے رو​
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو​
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر​
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو​
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں​
جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو​

فقط ہنر ہی نہیں عیب بھی کمال کے رکھ

فقط ہُنر ہی نہیں، عیب بھی کمال کے رکھ
سو دوسروں کے لیے تجربے مثال کے رکھ
نہیں ہے تاب تو پھر عاشقی کی راہ نہ چل
یہ کارزارِ جنوں ہے، جگر نکال کے رکھ
سبھی کے ہاتھ دلوں پر، نگاہ تجھ پر ہے
قدح بدست ہے ساقی قدم سنبھال کے رکھ

جو حرف حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا

جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا، سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا، سو بہا
ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف، سو ہے
ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہ،ا سو سہا
جسے جسے نہیں چاہا، اُسے اُسے چاہا
جہاں جہاں بھی مِرا دل نہیں رہا، سو رہا

جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا

جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
یہ شعلگی ہو بدن کی تو کیا کیا جائے
سو لازمی تھا ترے پیرہن کا جل جانا
تمہیں کرو کوئی درماں ، یہ وقت آپہنچا
کہ اب تو چارہ گروں کو بھی ہاتھ مل جانا

دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں

 دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
 ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں
چوبِ نم خوردہ کی مانند سُلگتے رہے ہم
 نہ تو بُجھ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں
 تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
 لوگ حیران و پریشاں ہمیں تکتے جاویں

تُم مجھے بتاؤ تو

تُم مجھے بتاؤ تو۔۔۔

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجیئے
مجھ کو فکر رہتی ہے، آپ انہیں گنوا دیجیئے
آپ کا کوئی ساتھی، دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں، یہ بہت بُرا ہو گا
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مِری فروزینہ

شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں​

شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم مِلے تمہیں​
تم سر بسر خوشی تھے، مگر غم مِلے تمہیں​
میں اپنے آپ میں نہ ملا، اِس کا غم نہیں​
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم مِلے تمہیں​
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے​
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم مِلے تمہیں​

دل پریشاں ہے کیا کیا جائے

دل پریشاں ہے، کیا کِیا جائے
عقل حیراں ہے، کیا کِیا جائے
شوقِ مُشکل پسند اُن کا حصول
سخت آساں ہے، کیا کِیا جائے
عشقِ خُوباں کے ساتھ ہی ہم میں
نازِ خُوباں ہے، کیا کِیا جائے

سامنے ہو کے دلنشیں ہوتا

سامنے ہو کے دلنشیں ہوتا
تُو بھی اے جانِ جاں یہیں ہوتا
تم بھی اکثر کہیں نہیں ہوتے
میں بھی اکثر کہیں نہیں ہوتا
زندگی اپنی جستجو ہے تری
تُو جو ہے جان، تُو کہیں ہوتا

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا​

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا​
میں تو اُس زخم ہی کو بھول گیا​​
ذات در ذات ہمسفر رہ کر​
اجنبی، اجنبی کو بھول گیا​
صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات​
میں اُسے شام ہی کو بھول گیا​

وا دریغا کہ ہمنشیں میرے

وا دریغا! کہ ہمنشیں میرے
میرا طرزِ بیان چُراتے ہیں
حیف صد حیف نقدِ جاں کے امیں
کیسۂ نقدِ جاں چراتے ہیں
ان پہ ہنسیے کہ روئیے آخر
رائیگاں، شائیگاں چراتے ہیں

کیا یہ آفت نہیں، عذاب نہیں

کیا یہ آفت نہیں، عذاب نہیں
دل کی حالت بہت خراب نہیں
بُود، پَل پَل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں, حساب نہیں
 خوب گاؤ، بجاؤ، اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں

نمونۂ کلام از آغا برقؔ کوہاٹی

نمونۂ کلام از آغا برقؔ کوہاٹی اصل نام سید محمد شاہ 
آپ مشہور شاعر احمد فرازؔ کے والدِ محترم تھے

بخت میرا اگر رسا ہوتا
 درد حق میں مرے دوا ہوتا
 مجھ کو حسرت کہ بندگی ہو نصیب
 اس کو خواہش کہ میں خدا ہوتا
 حضرتِ خضرؑ بھی ہیں ناواقف
 عشق میں کون رہنما ہوتا

************

ہزار میکدے اسکی بہار کے صدقے
 عجیب چیز ہے ساقی تری جوانی بھی

************

 آغا برقؔ کوہاٹی

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی ۔ مکمل غزل

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی
یہ رات کی خاموشی یہ عالمِ تنہائی
پھر درد اٹھا دل میں، پھر یاد تری آئی

ہم نے کسی کی یاد میں اکثر شراب پی

ہم نے کسی کی یاد میں اکثر شراب پی
 پی کر غزل کہی تو مکرر شراب پی
یادوں کا اک ہجوم تھا تنہا نہیں تھا میں
 ساحل کی چاندنی میں سمندر شراب پی
 مدّت کے بعد آج میں آفس نہیں گیا
 خود اپنے ساتھ بیٹھ کے دن بھر شراب پی

کل نالہ قمری کی صدا تک نہیں آئی

کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
 کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
 آدابِ خرابات کا کیا ذکر، یہاں تو
 رِندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی
تجھ ایسے مسیحا کے تغافل کا گِلہ کیا
 ہم جیسوں کی پُرسش کو قضا تک نہیں آئی

Saturday, 24 August 2013

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

 گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
 لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
 میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
 مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
 یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
 آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے

کچھ تو علاج وحشت ہل من مزید کر

کچھ تو علاج وحشت ہل من مزید کر
فردوس کو سجا کے جہنم رسید کر
کرتے ہیں ابنِ جہل کیوں اسکی وضاحتیں
اپنی "زبان" سے "شرحِ" کلامِ مجید کر
شہ رگ کو چھوڑ کر میرے سینے سے لگ کبھی
دل میں قیام ساکنِ حبل الورید کر

کیا خبر کس کی داستاں ہوا میں

 کیا خبر کس کی داستاں ہوا میں
 سب تھے خاموش جب بیاں ہوا میں
 یہیں روکا گیا مرا رستہ
 اور اسی دشت میں رواں ہوا میں
 تو ملا اس کے بعد یاد نہیں
 کون تھا اور پھر کہاں ہوا میں

مہلتِ یک نفس بہت ہے مجھے

مہلتِ یک نفس بہت ہے مجھے
 صرف اتنی ہوس بہت ہے مجھے
 کھینچ مت میرے گرد کوئی حصار
 زندگی کا قفس بہت ہے مجھے
 اپنے چاروں طرف فقط میں ہوں
 اپنی قربت ہی بس بہت ہے مجھے

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

دیر لگی آنے میں تم کو شُکر ہے پھر بھی آئے تو
 آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
 اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم نے بیچ دی اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو

راہِ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں

راہِ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بے گانے ہیں
 چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں، سب جانے پہچانے ہیں
 تنہائی سی تنہائی ہے، کیسے کہیں، کیسے سمجھائیں
 چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
 اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

ديکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
يہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے 
گور کس دل جلے کی ہے يہ فلک 
شعلہ اک صبح ياں سے اٹھتا ہے 
خانۂ دل سے زينہار نہ جا 
کوئی ايسے مکاں سے اٹھتا ہے 

ہر ترنم میں ملی ہے تری آواز مجھے

ہر ترنم میں ملی ہے تِری آواز مجھے
ایک ہی نغمہ سناتا ہے ہر اِک ساز مجھے
عشق کا بھی کوئی انجام ہوا کرتا ہے
عشق میں یاد ہے آغاز ہی آغاز مجھے
جیسے ویرانے سے ٹکرا کے پلٹتی ہے صدا
دل کے ہر گوشے سے آئی تِری آواز مجھے

Friday, 23 August 2013

ہر طرف انبساط ہے اے دل

ہر طرف انبساط ہے اے دل
اور ترے گھر میں رات ہے اے دل
عِشق ان ظالموں کی دنیا میں
کِتنی مظلُوم ذات ہے اے دل
میری حالت کا پوچھنا ہی کیا
سب ترا التفات ہے اے دل

جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں

جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
 گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں
 میں اس لئے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں
 کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں
 عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
 ہمارے سامنے کپڑے بدلنے لگتے ہیں

نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے

نیند آتے ہی مجھے اس کو گزر جانا ہے
 وہ مسافر ہے جسے میں نے شجر جانا ہے
 چاند کے ساتھ بہت دور نکل آیا تھا
 اب کھڑا سوچتا ہوں، میں نے کدھر جانا ہے
 اس کو کہتے ہیں ترے شہر سے ہجرت کرنا
گھر پہنچ کر بھی یہ لگتا کہ گھر جانا ہے

یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں

یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں
 دعائے نیم شب! تیری اجازت سے بناتا ہوں
 بہت آگے کی منزل ہے, خیال منزل جاناں
 میں رستے تک پہنچنے کیلئے رستے بناتا ہوں
اسی خاطر کوزہ گری سے ہاتھ کھینچے ہیں
 مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں کاسے بناتا ہوں

تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں

تجھ جیسا ہر طرف نظر آنا تو ہے نہیں
 دل آئینہ ہے، آئینہ خانہ تو ہے نہیں
 اے ہجر! تُو ہی کر لے کوئی شکل اختیار
 بچھڑے ہوؤں نے لوٹ کے آنا تو ہے نہیں
 کیوں خواب اور سانپ میں رہتی ہے کشمکش 
 آنکھوں کی تہ میں کوئی خزانہ تو ہے نہیں

وقت درماں پزیر تھا ہی نہیں

وقت درماں پزیر تھا ہی نہیں 
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
ترکِ الفت ہے کس قدر آساں
آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
  ہے کہاں موجۂ صبا و شمیم
جیسے تو موجۂ صبا ہی نہیں

میں دل کی شراب پی رہا ہوں

میں دل کی شراب پی رہا ہوں
 پہلو کا عذاب پی رہا ہوں
 میں اپنے خرابۂ عبث میں
 بے طرح خراب پی رہا ہوں
ہے میرا حساب بے حسابی
 دریا میں سراب پی رہا ہوں

دل سے ہے بہت گریز پا تو

دل سے ہے بہت گریز پا تو
 تو کون ہے اور ہے بھی کیا تو
 کیوں مجھ میں گنوا رہا ہے خود کو
 مجھ ایسے یہاں ہزار ہا تو
ہے تیری جدائی اور میں ہوں
 ملتے ہی کہیں بچھڑ گیا تو

کوئی بھی کیوں مجھ سے شرمندہ ہوا

 کوئی بھی کیوں مجھ سے شرمندہ ہوا
 میں ہوں اپنے طور کا ہارا ہوا
 دل میں ہے میرے کئی چہروں کی یاد
 جانیے میں کِس سے ہوں رُوٹھا ہوا
 شہر میں آیا ہوں اپنے آج شام
 اک سرائے میں ہوں میں ٹھیرا ہوا

ہر خراش نفس لکھے جاؤں

ہر خراشِ نفس، لکھے جاؤں
 بس لکھے جاؤں، بس لکھے جاؤں
 ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
 روشنی کے برس لکھے جاؤں
اُن بسی بستیوں کا سارا لکھا
 ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں

میں نہ ٹھہروں نہ جان تو ٹھہرے

میں نہ ٹھہروں نہ جان تُو ٹھہرے
 کون لمحوں کے رُو برو ٹھہرے
 نہ گزرنے پہ زندگی گزری
 نہ ٹھہرنے پہ چار سُو ٹھہرے
ہے مری بزمِ بے دلی بھی عجیب
 دلِ پُر خوں جہاں سبو ٹھہرے

ناروا ہے سخن شکایت کا

ناروا ہے سخن شکایت کا
 وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
 دشت میں شہر ہو گئے آباد
 اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
 بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا

سارے رشتے بھلائے جائیں گے

سارے رشتے بھلائے جائیں گے
 اب تو غم بھی گنوائے جائیں گے
 جانیے کس قدر بچے گا وہ
 اس سے جب ہم گھٹائے جائیں گے
اس کو ہو گی بڑی پشیمانی
 اب جو ہم آزمائے جائیں گے

بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے

بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے
 اک دم سے بھُولنا اسے پھر ابتدا سے ہے
 یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو
 اک حُزن دل میں نکہتِ موجِ صبا سے ہے
دستِ شجر کی تحفہ رسانی ہے تا بہ دل
 اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے

خون تھوکے گی زندگی کب تک

خون تھوکے گی زندگی کب تک
 یاد آئے گی اب تری کب تک
 جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
 رہے آباد دل گلی کب تک
ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب
 پیے جاؤں میں خون ہی کب تک

کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں

 کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں
 شہر میں اک شور ہے اور کوئی صدا نہیں
 آج وہ پڑه لیا گیا جس کو پڑها نہ جا سکا
 آج کسی کتاب میں کچھ بهی لکها ہوا نہیں
 اپنے سبهی گلے بجا، پر ہے یہی کہ دلربا 
 میرا تیرا معاملہ عشق کے بس کا تها نہیں

مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
 وجد آتا ہے حال پر اپنے
 ابھی مت دیجیو جواب کہ میں
 جھوم تو لوں سوال پر اپنے
عمر بھر اپنی آرزو کی ہے
 مر نہ جاؤں وصال پر اپنے

میں اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا

چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو پھر بھی
 میں اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا 
 اِن کی لذت اور اذیت سے میں اپنا عہد نہیں توڑوں گا
 تیز نظر نابیناؤں کی آبادی میں 
 کیا میں اپنے دھیان کی یہ پونجی بھی گنوا دوں

دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے

دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شاید
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے

دیوانگی خرابی بسیار ہی سہی

دیوانگی خرابئ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
رشتہ کوئی تو اس سے تعلق کا چاہیے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
 ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
 جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
 حوصلہ کرتے ہیں، لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
 وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں

Thursday, 22 August 2013

ہجر جاناں میں گئی جان بڑی مشکل سے

ہجرِ جاناں میں گئی جان بڑی مشکل سے 
 میری مشکل ہوئی آسان بڑی مشکل سے 
ضعف تھا ما نعِ آرائش وحشت کیا کیا 
 ہاتھ آیا ہے گریبان بڑی مشکل سے 
بھولے بھالے ہیں فرشتوں کو کوئی پھسلا دے 
 مانتا ہے مگر انسان بڑی مشکل سے 

ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں

ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں 
 ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں 
 تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بے چین 
 تم بھی ہو بے قرار ہم بھی ہیں 
اے فلک کہ تو کیا ارادہ ہے 
 عیش کے خواستگار ہم بھی ہیں 

اپنی زلفیں کیوں سر بالیں پریشاں کر چلے

اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے
 آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے
 دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر تیلی پر ہیں
 ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے
دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد
 پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے

نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے

نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے
اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو
ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تم نے
مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا
مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تم نے

وہ نہیں تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا

وہ نہیں، تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا
 اف یہ دل کی ویرانی، یہ نظر کا سناٹا
 خوش خیال لوگوں کو بد گماں نہ کر ڈالے
 کچھ اِدھر کی خاموشی، کچھ ادھر کا سناٹا
کاش کویٔی پڑھ سکتا، کاش کویٔی سن سکتا
 شام کی شفق میں تھا رات بھر کا سناٹا

خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے

خوب نبھے گی ہم دونوں میں، میرے جیسا تُو بھی ہے
 تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا، تھوڑا جھوٹا تُو بھی ہے
 جنگ انا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے
 میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا، بکھرا بکھرا تُو بھی ہے
جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں
 میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا، سہما سہما تُو بھی ہے

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے

مکان

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں، تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
یہ زمین تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹی شاخوں سے اتارے ہم نے

کوئی تارا کوئی شب تاب کہاں سے لائیں

کوئی تارا، کوئی شب تاب کہاں سے لائیں 
 شبِ سُرخاب میں سُرخاب کہاں سے لائیں
 گہرے پانی کی طرح خود میں بھرے رہتے ہیں 
 ساحلوں کے لیے پایاب کہاں سے لائیں 
ہم کو آتا نہیں ہر حال میں چلتے رہنا 
 اے زمانے! ترے آداب کہاں سے لائیں 

اے صبح کے غمخوارو

اے صُبح کے غمخوارو 

 اے صُبح کے غمخوارو! اِس رات سے مت ڈرنا 
 جس ہات میں خنجر ہے اس ہات سے مت ڈرنا 
 خورشید کے متوالو! ذرات سے مت ڈرنا 
چنگیز نژادوں کی اوقات سے مت ڈرنا 

 ہاں شاملِ لب ہو گی نفرت بھی، ملامت بھی 
 یارانہ کدورت بھی، دیرینہ عداوت بھی 

ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا

ہر اک نے کہا، کیوں تجھے آرام نہ آیا 
 سُنتے رہے ہم، لب پہ ترا نام نہ آیا 
 دیوانے کو تکتی ہیں ترے شہر کی گلیاں 
 نِکلا، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا 
مت پُوچھ کہ ہم ضبط کی کِس راہ سے گُزرے 
 یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی اِلزام نہ آیا 

جھوٹا

 جھوٹا 

وہ کہتا تھا
ہتھیلی پر خزاں رُت میں
 مِرا جب نام لکھو گے
 تو تم خُوشبو کی صُورت میں
 مجھے نزدیک پاؤ گے

Wednesday, 21 August 2013

کبھی کبھی ایک شدید خواہش

کبھی کبھی ایک شدید خواہش
 چلو کسی کے گھر چلتے ہیں
جس کے گھر کے دروازے پر دربانوں کا راج نہ ہو
 جس کے گھر پر یوں جانے میں ہم کو بھی کچھ لاج نہ ہو
 جس کے گھر کی دیواروں پر
 اُکتاہٹ کا رنگ نہ ہو

بارہا کہا تم سے

بارہا کہا تم سے 

بارہا کہا تم سے
جانِ جاں محبت میں
 کوئی ضِد نہیں ہوتی
 کوئی میں نہیں ہوتی
 روٹھنا کبھی ایسے
 مستقل نہیں ہوتا

فگار پاؤں مرے اشک نارسا میرے

فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے
 کہیں تو مِل مجھے، اے گمشدہ خدا میرے
 میں شمع کُشتہ بھی تھا، صبح کی نوید بھی تھا
 شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے
وہ دردِ دل میں ملا، سوزِ جسم و جاں میں ملا
 کہاں کہاں اسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے

روشن وہ مرا گوشۂ تنہائی تو کر جائے

روشن وہ مرا گوشۂ تنہائی تو کر جائے
 یادوں میں سہی، انجمن آرائی تو کر جائے
 یہ میری ضمانت ہے کہ پائے گا وہ شہرت
 تھوڑی سی وہ پہلے مری رسوائی تو کر جائے
کر دوں میں اُسے عقل کے مفہوم سے واقف
 کچھ دن کے لیے وہ مجھے سودائی تو کر جائے

سیلاب اور جہالت

سیلاب اور جہالت

 میرے مہمان! بہتر پتا ہے تجھے
 ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے
 خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی
 حکمرانوں کے ناوقت کے راگ بھی
آمریت نے توڑا ہمیں بارہا
 عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا

وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی

وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
 کفِ دستِ نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
 وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹُونا، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
 کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
 قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی