Thursday, 29 August 2013

کھینچا گیا ہے کس کو ابھی دار کی طرف​

کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دار کی طرف​
منصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف​
معلوم ہو تجھے کہ ہے دست بریدہ کیا​
انگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف​
قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصور​
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف​
زَر کی کشش نے کھینچ لیا سارے شہر کو​
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف​
سارا جہاں کھڑا تھا ضرورت کی چھاؤں میں​
کوئی گیا نہ سایۂ دیوار کی طرف​
سُوکھے ہوئے شجر پہ کوئی زخم بھی نہیں​
پتھر بھی آئے نخلِ ثمر دار کی طرف​
حیراں ہوں پھر بھی عکسِ رُخِ یار کِس طرح​
جب آئینہ نہیں ہے رُخِ یار کی طرف​
سب قبلہ رُو ہوئے تھے عبادت کے واسطے​
میں نے کیا ہے رُخ تِری دیوار کی طرف​
دھاگے میں کچھ پروئے ہوئے پھول تھے عدیمؔ
پہلے خزاں چلی ہے اُسی ہار کی طرف​

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment