ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدۂ تر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی، اور بھنور بھی
اے بحرِ سخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدۂ تر بھی
یہ شہرِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی
کچھ پیاس ہے اس حسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حسن کا پیاسا ہے مِرا حسنِ نظر بھی
کیا عِشق ہے، کیا حسن ہے، کیا جانئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی
تُو چشمِ عنایت سے ذرا رخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی
کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی
کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اتر بھی
عدیم ہاشمی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی، اور بھنور بھی
اے بحرِ سخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدۂ تر بھی
یہ شہرِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی
کچھ پیاس ہے اس حسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حسن کا پیاسا ہے مِرا حسنِ نظر بھی
کیا عِشق ہے، کیا حسن ہے، کیا جانئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی
تُو چشمِ عنایت سے ذرا رخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی
کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی
کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اتر بھی
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment