Wednesday 28 August 2013

تعلقات میں یہ ایک سانحہ بھی ہے

تعلقات میں یہ ایک  سانحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے
یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے
کوئی بھی پُل ہو، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے
یہ تیری بات ہے، آیت نہیں، حدیث نہیں
کوئی تِرا، تو کوئی میرا فیصلہ بھی ہے
پیالہ بھر تو لیا ہے جُدائی کا تُو نے
مجھے بتا کہ کبھی زہر یہ پیا بھی ہے؟
تعلقات کو اُتنا رکھا ہے، جتنے ہیں
قریب بھی ہے، مُناسب سا فاصلہ بھی ہے
ہوس کو چھانے دیا کم عدیمؔ چاہت پر
کبھی کبھی یہ مگر واقعہ ہوا بھی ہے

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment