یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں
دعائے نیم شب! تیری اجازت سے بناتا ہوں
بہت آگے کی منزل ہے, خیال منزل جاناں
میں رستے تک پہنچنے کیلئے رستے بناتا ہوں
اسی خاطر کوزہ گری سے ہاتھ کھینچے ہیں
اجازت ہی نہیں اس کو نمائش میں گلے لگانے کی
کہ میں تصویر میں جلتے ہوئے خیمے بناتا ہوں
مرے بعد آنے والوں سے کہو حوصلہ رکھیں
میں خود کاٹ کر ان کے لئے رستے بناتا ہوں
مجھے جب مستقل غم کی ضرورت تنگ کرتی ہے
میں تجھ کو قتل کر دینے کے منصوبے بناتا ہوں
نہ کیوں ترکِ تعلق پر گماں گزرے محبت کا
کہ میں تو بے دلی کے کام بھی دل سے بناتا ہوں
مجھ ایسے کوہ کن کو رفتگاں کا رنج ہے تابشؔ
میں پتھر کاٹ کر نہریں نہیں، کتبے بناتا ہوں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment