Friday, 23 August 2013

یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں

یہ میں جو حرف سے مصرعے نہیں حجرے بناتا ہوں
 دعائے نیم شب! تیری اجازت سے بناتا ہوں
 بہت آگے کی منزل ہے, خیال منزل جاناں
 میں رستے تک پہنچنے کیلئے رستے بناتا ہوں
اسی خاطر کوزہ گری سے ہاتھ کھینچے ہیں
 مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں کاسے بناتا ہوں
 اجازت ہی نہیں اس کو نمائش میں گلے لگانے کی
 کہ میں تصویر میں جلتے ہوئے خیمے بناتا ہوں
 مرے بعد آنے والوں سے کہو حوصلہ رکھیں
 میں خود کاٹ کر ان کے لئے رستے بناتا ہوں
 مجھے جب مستقل غم کی ضرورت تنگ کرتی ہے
 میں تجھ کو قتل کر دینے کے منصوبے بناتا ہوں
 نہ کیوں ترکِ تعلق پر گماں گزرے محبت کا
 کہ میں تو بے دلی کے کام بھی دل سے بناتا ہوں
 مجھ ایسے کوہ کن کو رفتگاں کا رنج ہے تابشؔ
 میں پتھر کاٹ کر نہریں نہیں، کتبے بناتا ہوں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment