Saturday, 31 August 2013

بھلا دو رنج کی باتوں میں کیا ہے

بھلا دو رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے
بہت تاریک دن ہے، پھر بھی دیکھو
اجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
نہیں پاتیں جسے بیدار نظریں
خدایا! یہ میرے خوابوں میں کیا ہے
یہ کیا ڈھونڈے چلے جاتی ہے دُنیا
تماشا سا گلی کُوچوں میں کیا ہے
ہے وحشت سی یہ ہر چہرے پہ کیسی
نجانے سہم سا نظروں میں کیا ہے
یہ اِک ہیجان سا دریا میں کیوں ہے
یہ کچھ سامان سا موجوں میں کیا ہے
ذرا سا بَل ہے اِک زُلفوں کا اُس کے
وگرنہ، زور زنجیروں میں کیا ہے
ہیں خمیازے سُرورِ آرزو کے
نشاطِ غم! کہو ناموں میں کیا ہے
تمہاری دیر آمیزی بھی دیکھی
تکلّف لکھنؤ والوں میں کیا ہے

شان الحق حقی

No comments:

Post a Comment