سانس کے شور کو جھنکار نہ سمجھا جائے
ہم کو اندر سے گرفتار نہ سمجھا جائے
اس کو رَستے سے ہٹانے کا یہ مطلب تو نہیں
کسی دیوار کو دیوار نہ سمجھا جائے
میں کسی اور حوالے سے اسے دیکھتا ہوں
یہ زمین تو ہے کسی کاغذی کشتی جیسی
بیٹھ جاتا ہوں اگر بار نہ سمجھا جائے
اس کو عادت ہے گھنے پیڑ میں سو جانے کی
چاند کو دیدۂ بیدار نہ سمجھا جائے
اپنی باتوں پہ وہ قائم نہیں رہتا تابشؔ
اس کے انکار کو انکار نہ سمجھا جائے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment