Sunday, 25 August 2013

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا​

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا​
میں تو اُس زخم ہی کو بھول گیا​​
ذات در ذات ہمسفر رہ کر​
اجنبی، اجنبی کو بھول گیا​
صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات​
میں اُسے شام ہی کو بھول گیا​
عہدِ وابستگی گزار کے میں​
وجہِ وابستگی کو بھول گیا​
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں​
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا​​
کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر​
ایک میں، ہر کسی کو بھول گیا​
سب سے پُراَمن واقعہ یہ ہے​
آدمی، آدمی کو بھول گیا​
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ​
ہرغمِ زندگی کو بھول گیا​
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا​
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا​
کیا قیامت ہوئی اگر اِک شخص​
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا​
سوچ کر اُس کی خلوت انجمنی​
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا​
سب بُرے مجھ کو یاد رہتے ہیں​
جو بَھلا تھا، اُسی کو بھول گیا​
اُن سے وعدہ تو کر لیا، لیکن​
اپنی کم فُرصتی کو بھول گیا​
بستیو! اب تو راستہ دے دو​
اب تو میں اُس گلی کو بھول گیا​
اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا​
میں بھی گویا اُسی کو بھول گیا​
یعنی تم وہ ہو، واقعی! حد ہے​
میں تو سچ مُچ سبھی کو بھول گیا​
آخری بُت، خدا نہ کیوں ٹھہرے​
بُت شکن، بُت گری کو بھول گیا​
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے​
غالباً میں کسی کو بھول گیا​
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا​

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment