Sunday, 25 August 2013

ہم نے کسی کی یاد میں اکثر شراب پی

ہم نے کسی کی یاد میں اکثر شراب پی
 پی کر غزل کہی تو مکرر شراب پی
یادوں کا اک ہجوم تھا تنہا نہیں تھا میں
 ساحل کی چاندنی میں سمندر شراب پی
 مدّت کے بعد آج میں آفس نہیں گیا
 خود اپنے ساتھ بیٹھ کے دن بھر شراب پی
 اس کاک ٹیل کا تو نشہ ہی کچھ اور ہے
 غم کو خوشی کے ساتھ ملا کر شراب پی
 ویسے تو ہم نے پی ہی نہیں تھی کبھی شراب
 پینے لگے تو وجد میں آ کر شراب پی
 اب کون جا کے صاحبِ منبر سے یہ کہے
 کیوں خون پی رہا ہے ستم گر، شراب پی 

 فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment