ہم نے کسی کی یاد میں اکثر شراب پی
پی کر غزل کہی تو مکرر شراب پی
یادوں کا اک ہجوم تھا تنہا نہیں تھا میں
ساحل کی چاندنی میں سمندر شراب پی
مدّت کے بعد آج میں آفس نہیں گیا
اس کاک ٹیل کا تو نشہ ہی کچھ اور ہے
غم کو خوشی کے ساتھ ملا کر شراب پی
ویسے تو ہم نے پی ہی نہیں تھی کبھی شراب
پینے لگے تو وجد میں آ کر شراب پی
اب کون جا کے صاحبِ منبر سے یہ کہے
کیوں خون پی رہا ہے ستم گر، شراب پی
فاضل جمیلی
No comments:
Post a Comment