جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
میرے سورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں
یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا
یارِ پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اسے
کوئی زنجیرِ وفا اے شبِ وعدہ پہنا
غیرتِ عشق تو مانع تھی مگر میں نے فرازؔ
دوست کا طوق سرِ محفلِ اعداء پہنا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment