ہجرِ جاناں میں گئی جان بڑی مشکل سے
میری مشکل ہوئی آسان بڑی مشکل سے
ضعف تھا ما نعِ آرائش وحشت کیا کیا
ہاتھ آیا ہے گریبان بڑی مشکل سے
بھولے بھالے ہیں فرشتوں کو کوئی پھسلا دے
جب کسی زلف پریشان کا خیال آتا ہے
جمع پھر ہوتے ہیں اوسان بڑی مشکل سے
دشت الفت نہیں بازی کہ طفلاں اے دل
ہاتھ آتا ہے یہ میدان بڑی مشکل سے
جاں نثاروں میں ہم ہی ہیں یہ تمیں یاد رہے
ورنہ دیتا ہے کوئی جان بڑی مشکل سے
کیا ہر اک مرحلۂ عشق ہے دشوار گزار
طے ہو آسان سا آسان بڑی مشکل سے
لے گئے کھینچ کے بتخانے سے ہم مسجد میں
کل ہوا داغؔ مسلمان بڑی مشکل سے
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment