حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ
تِرے وصال کی خُوشبو ہے جسم و جاں سے الگ
کہاں پڑاؤ کریں گے، کہاں پہ ٹھہریں گے
کہ تُو زمیں سے جُدا اور میں آسماں سے الگ
گروہِ ابَر نے طوفان کو جگانا ہے
پھر اسکے بعد ہوا بھی ہے بادباں سے الگ
بدل رہی ہے شب و روز کے تسلسل کو
وہ ایک آہ جو ہوتی نہیں فغاں سے الگ
ادھورے پن کی سزا موت ہے، سو دُکھ ہے مجھے
مِرا قبیلہ ہوا کیسے درمیاں سے الگ
قصیلِ شب سے قضا لے گئی اُٹھا کے سلیمؔ
وہ اِک چراغ کہ تھا شہرِ رفتگاں سے الگ
تِرے وصال کی خُوشبو ہے جسم و جاں سے الگ
کہاں پڑاؤ کریں گے، کہاں پہ ٹھہریں گے
کہ تُو زمیں سے جُدا اور میں آسماں سے الگ
گروہِ ابَر نے طوفان کو جگانا ہے
پھر اسکے بعد ہوا بھی ہے بادباں سے الگ
بدل رہی ہے شب و روز کے تسلسل کو
وہ ایک آہ جو ہوتی نہیں فغاں سے الگ
ادھورے پن کی سزا موت ہے، سو دُکھ ہے مجھے
مِرا قبیلہ ہوا کیسے درمیاں سے الگ
قصیلِ شب سے قضا لے گئی اُٹھا کے سلیمؔ
وہ اِک چراغ کہ تھا شہرِ رفتگاں سے الگ
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment