Wednesday 21 August 2013

سیلاب اور جہالت

سیلاب اور جہالت

 میرے مہمان! بہتر پتا ہے تجھے
 ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے
 خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی
 حکمرانوں کے ناوقت کے راگ بھی
آمریت نے توڑا ہمیں بارہا
 عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا
 ٹیکس کے عِوض میں لوڈ شیڈنگ ملی
 قحط و بحران کی آگ جلتی رہی
 ملک دو لخت ہو کر سسکتا رہا
 بینک بیلنس وزیروں کا بڑھتا رہا
 لاکھ بھونچال ہوں ، لاکھ سیلاب ہوں
 رہزنوں کے خزانے ہی سیراب ہوں
 میرے مہمان ! یوں دل نہ میلا کرو
 چند لقمے مرے پاس ہیں ، بانٹ لو
 میں نہ ممبر، وڈیرا ، نہ سردار ہوں
 ہاں مگر میں ہی تیرا اَلم خوار ہوں

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment