سیلاب اور جہالت
میرے مہمان! بہتر پتا ہے تجھے
ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے
خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی
حکمرانوں کے ناوقت کے راگ بھی
آمریت نے توڑا ہمیں بارہا
عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا
ٹیکس کے عِوض میں لوڈ شیڈنگ ملی
قحط و بحران کی آگ جلتی رہی
ملک دو لخت ہو کر سسکتا رہا
بینک بیلنس وزیروں کا بڑھتا رہا
لاکھ بھونچال ہوں ، لاکھ سیلاب ہوں
رہزنوں کے خزانے ہی سیراب ہوں
میرے مہمان ! یوں دل نہ میلا کرو
چند لقمے مرے پاس ہیں ، بانٹ لو
میں نہ ممبر، وڈیرا ، نہ سردار ہوں
ہاں مگر میں ہی تیرا اَلم خوار ہوں
ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے
خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی
حکمرانوں کے ناوقت کے راگ بھی
آمریت نے توڑا ہمیں بارہا
عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا
ٹیکس کے عِوض میں لوڈ شیڈنگ ملی
قحط و بحران کی آگ جلتی رہی
ملک دو لخت ہو کر سسکتا رہا
بینک بیلنس وزیروں کا بڑھتا رہا
لاکھ بھونچال ہوں ، لاکھ سیلاب ہوں
رہزنوں کے خزانے ہی سیراب ہوں
میرے مہمان ! یوں دل نہ میلا کرو
چند لقمے مرے پاس ہیں ، بانٹ لو
میں نہ ممبر، وڈیرا ، نہ سردار ہوں
ہاں مگر میں ہی تیرا اَلم خوار ہوں
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment