Wednesday 28 August 2013

لذت ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی

لذّتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی
قرض تھی یادِ رفتگاں، رات حساب لے گئی
جامِ سفال پر مِری کتنی گرفت تھی، مگر
آب و ہوائے روز و شب، خانہ خراب لے گئی
صحبتِ ہجر میں گِھری جنبشِ چشمِ سُرمگیں
خود ہی سوال کر گئی ،خود ہی جواب لے گئی
تشنہ خرامِ عشق پر ابَر کے سائے تھے، مگر
عرصۂ بے گیاہ تک، چشمکِ آب لے گئی
کارِ جہاں سے رُوٹھ کر پھر تری یاد کی ہوس
شاخِ نہالِ زخم سے بُوئے گلاب لے گئی
پہلے ہوا کے زیر و بم ہم کو قریب کر گئے
پھر ہمیں ساحلوں سے دُور، یورشِ آب لے گئی
موجۂ وقت سے نڈھال ڈُوب رہے ہیں خدوخال
ساعتِ حیلہ جُو سلیمؔ! عہدِ شباب لے گئی

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment