Monday 26 August 2013

ہر طرف موجۂ خوشبو ہے مگر اب وہ کہاں

ہر طرف موجۂ خوشبو ہے، مگر اب وہ کہاں
ذکر اس شوخ کا ہر سُو ہے، مگر اب وہ کہاں
قیس و لیلیٰ کے طرفدار نے منہ موڑ لیا
خوں فشاں دیدۂ آہو ہے، مگر اب وہ کہاں
جانے والے سے رہ و رسمِ مسیحائی تھی
تیر سینے میں ترازو ہے، مگر اب وہ کہاں
راہ تکتے ہیں نگاہوں کے ستارے شب بھر
چاند نکلا ہوا آنسو ہے، مگر اب وہ کہاں
یوں تو رقصاں ہے فضاؤں میں حکایت اس کی
اس کے اشعار کا جادو ہے، مگر اب وہ کہاں
شام افسردہ ہے اس شخص کی فرقت میں سعیدؔ
رات الجھا ہوا گیسو ہے، مگر اب وہ کہاں

  سعید خان

No comments:

Post a Comment