کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں
غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں
پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں
شورشِ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں
غم کا نہ دل میں ہو گزر، وصل کی شب ہو یوں بسر
سب یہ قبول ہے مگر، خوفِ سحر کو کیا کروں
حال میرا تھا جب بدتر، تب نہ ہوئی تمہیں خبر
بعد مرے ہوا اثر، اب میں اثر کو کیا کروں
دل کی ہوس مٹا تو دی، ان کی جھلک دکھا تو دی
پر یہ کہو کہ شوق کی "بارِ دگر" کو کیا کروں
حسرتِؔ نغز گو ترا، کوئی نہ قدرداں ملا
اب یہ بتا کہ میں ترے، عرضِ ہنر کو کیا کروں
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment