Sunday 25 August 2013

تُم مجھے بتاؤ تو

تُم مجھے بتاؤ تو۔۔۔

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجیئے
مجھ کو فکر رہتی ہے، آپ انہیں گنوا دیجیئے
آپ کا کوئی ساتھی، دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں، یہ بہت بُرا ہو گا
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مِری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ 
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا 
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
نقشِ جاں مِٹا دوں کیا

مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مِری فروزینہ
دل کی جانِ زرّینہ
رنگ رنگ رنگینہ
بات جو ہے وہ کیا ہے 
تم مجھے بتاؤ تو 
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیےتم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے؟ ‌​

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment