Wednesday 28 August 2013

ہم دل میں تیری چاہ زیادہ نہیں رکھتے

ہم دل میں تیری چاہ زیادہ نہیں رکھتے
لیکن تجھے کھونے کا ارادہ نہیں رکھتے
کچھ ایسے سُبک سَر ہوئے ہم اہلِ مسافت
منزل کے لیے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے
وہ تنگئی خلوت ہوئی اب تیرے لیے بھی
دل رکھتے ہوئے، سینہ کشادہ نہیں رکھتے
کس قافلۂ چشم سے بچھڑے ہیں کہ اب تک
جُز دربدری، کوئی لبادہ نہیں رکھتے
کچھ لغزشیں قدموں سے نکلتی نہیں، ورنہ
بے وجہ طرفدارئ بادہ نہیں رکھتے
ہم لوگ سلیمؔ اتنے خسارے میں رہے ہیں
اب پیشِ نظر کوئی افادہ نہیں رکھتے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment