Wednesday 28 August 2013

ہائے اس برق جہاں سوز پر آنا دل کا

ہائے اس برقِ جہاں سوز پر آنا دل کا
سمجھے جو گرمئ ہنگامہ جلانا دل کا
ہے تِرا سلسلۂ زُلف بھی کتنا دل بند
پھنسنے سے پہلے بھی مشکل تھا چھٹانا دل کا
دیکھتے ہم بھی کہ آرام سے سوتے کیوں کر
نہ سنا تم نے کبھی ہائے فسانہ دل کا
ہم سے پوچھیں کہ اسی کھیل میں کھوئی ہے عمر
کھیل جو لوگ سمجھتے ہیں لگانا دل کا
عاقبت چاہِ ذقن میں خبر اس کی پائی
مدّتوں سے نہیں لگتا تھا ٹھکانا دل کا
کس طرح دردِ محبت میں جتاؤں اس کو
بھید لڑکوں سے نہیں کہتے ہیں دانا دل کا
ہم یہ سمجھے تھے کہ آرام سے تم رکھو گے
لائیے تم کو ہے منظور ستانا دل کا
ہم بھی کیا سادے ہیں کیا کیا ہے توقع اس سے
آج تک جس نے ذرا حال نہ جانا دل کا
جلوہ گاہِ غم و شادی، دل و شادی کمیاب
کیوں نہ ہو شکوہ سرا ایک زمانہ دل کا
شکل مانندِ پری اور یہ افسونِ وفا
آدمی کا نہیں مقدور بچانا دل کا
شیفتہؔ ضبط کرو ایسی ہے کیا بے تابی
جو کوئی ہو تمہیں احوال سنانا دل کا

مصطفیٰ خان شیفتہ

No comments:

Post a Comment