دل پریشاں ہے، کیا کِیا جائے
عقل حیراں ہے، کیا کِیا جائے
شوقِ مُشکل پسند اُن کا حصول
سخت آساں ہے، کیا کِیا جائے
عشقِ خُوباں کے ساتھ ہی ہم میں
بےسبب ہی مری طبیعتِ غم
سب سے نالاں ہے، کیا کِیا جائے
باوجود اُن کی دلنوازی کے
دل گریزاں ہے، کیا کِیا جائے
میں تو نقدِ حیات لایا تھا
جنسِ ارزاں ہے، کیا کِیا جائے
ہم سمجھتے تھے عِشق کو دُشوار
یہ بھی آساں ہے، کیا کِیا جائے
وہ بہاروں کی ناز پروَردہ
ہم پہ نازاں ہے، کیا کِیا جائے
مصرِ لُطف و کرم میں بھی اے جونؔ
یادِ کنعاں ہے، کیا کِیا جائے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment