Friday, 23 August 2013

کوئی بھی کیوں مجھ سے شرمندہ ہوا

 کوئی بھی کیوں مجھ سے شرمندہ ہوا
 میں ہوں اپنے طور کا ہارا ہوا
 دل میں ہے میرے کئی چہروں کی یاد
 جانیے میں کِس سے ہوں رُوٹھا ہوا
 شہر میں آیا ہوں اپنے آج شام
 اک سرائے میں ہوں میں ٹھیرا ہوا
بے تعلق ہوں اب اپنے دل سے بھی
 میں عجب عالم میں بے دنیا ہوا
 ہے عجب اک تیرگی در تیرگی
 کہکشانوں میں ہوں میں لپٹا ہوا
 مال بازارِ زمیں کا تھا میں جونؔ
 آسمانوں میں میرا سودا ہوا
 اب ہے میرا کربِ ذات آساں بہت
 اب تو میں اس کو بھی ہوں بُھولا ہوا

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment