ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں
ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں
تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بے چین
تم بھی ہو بے قرار ہم بھی ہیں
اے فلک کہ تو کیا ارادہ ہے
شہر خالی کیے دکان کسی
ایک ہی وعدہ خوار ہم بھی ہیں
شرم سمجھے تیرے تغافل کو
واہ! کیا ہوشیار ہم بھی ہیں
تم اگر اپنی خو کے ہو معشوق
اپنے مطلب کے یار ہم بھی ہیں
جس نے چاہا پھنسا لیا ہم کو
دلبروں کے شکار ہم بھی ہیں
کون سا دل ہے جس میں داغؔ نہیں
عشق کی یادگار ہم بھی ہیں
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment