تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد!، سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
تِرے دکھ سے کم نہیں جن کے دکھ کبھی اُن کی آگ میں جل کے رو
تِرے دوستوں کو خبر ہے سب، تِری بے کلی کا جو ہے سبب
تُو بھلے سے اُس کا نہ ذکر کر، تُو ہزار نام بدل کے رو
غمِ ہجر لاکھ کڑا سہی، پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
مِری جاں یہ محفلِ شعر ہے تو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
احمد فراز
No comments:
Post a Comment