Saturday 31 August 2013

نظر سے جستجو بے کار نکلی

نظر سے جستجو بے کار نکلی
خود اپنے آپ سے دو چار نکلی
خِرد کو تھی یہ خوش فہمی کہ دَر ہے
پسِ دِیوار بھی، دِیوار نکلی
مجھے حسرت تھی جس تابِ سخن کی
وہی شے اس کو بھی درکار نکلی
چھٹا آخر کو دنیا سے، تو دیکھا
محبت ہی گلے کا ہار نکلی
نگاہیں جھک گئیں، جب خود پسندی
برہنہ بر سرِ دربار نکلی
نہالِ فِکر کی شاخیں نمودار
قلم ہو کر بھی کیا گلنار نکلی
بھلا ہوتا ہے کیا کہنے سے حقی
چلو کچھ خواہشِ اِظہار نکلی

شان الحق حقی

No comments:

Post a Comment