Monday 26 August 2013

اب کہیں کوچۂ بے مہر سے نکلا جائے

اب کہیں کوچۂ بے مہر سے نکلا جائے
 دل یہ کہتا ہے کہ اِس شہر سے نکلا جائے
 کب سے پردیس کا سورج ہے سوا نیزے پر
 چِلچلاتی ہوئی دو پہر سے نکلا جائے
دل گرِفتہ ہے تو ماحول بھی افسردہ ہے
 سانس لینے کے لئے شہر سے نکلا جائے
 اس سے پہلے کہ اذیت میں سکوں مِل جائے
 درد کے پھیلے ہوئے زہر سے نکلا جائے
 جوش کہتا ہے کہ ظلمت سے لڑا جائے سعیدؔ
 ہوش کہتا ہے کہ اِس قہر سے نکلا جائے

سعید خان

No comments:

Post a Comment