جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا، سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا، سو بہا
ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف، سو ہے
ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہ،ا سو سہا
جسے جسے نہیں چاہا، اُسے اُسے چاہا
نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ
کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا، سو کہا
یہ دیکھ تجھ سے وفا کی کہ بیوفائی کی
چلو میں اور کہیں مبتلا رہا، سو رہا
تِرے نصیب اگر جا لگے کنارے سے
وگرنہ سیلِ زمانہ میں جو بہا، سو بہا
شکست و فتح مِرا مسئلہ نہیں ہے فرازؔ
میں زندگی سے نبرد آزما رہا، سو رہا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment