Saturday 31 August 2013

راستے میں نہ آ شجر کی طرح

راستے میں نہ آ شجر کی طرح
مِل کہیں دوپہر میں گھر کی طرح
ہم اسے دیکھنے کہاں جائیں
ساتھ رہتا ہو جو نظر کی طرح
لوگ دوڑے گھروں کی سمت آخر
شام آئی بری خبر کی طرح
دور افق پر ہے آندھیوں کا ہجوم
اور ہم بے خبر شجر کی طرح
وہ ہوا ہے کہ اب تو بازو بھی
ٹوٹتے جا رہے ہیں پَر کی طرح
آنکھ تھی بند سیپ کی مانند
اشک پلکوں پہ تھے گہر کی طرح

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment