Wednesday 28 August 2013

یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں

یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں
وہ گفتگو در و دیوار کرنا چاہتے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ گزرے گا اِک سیلِ فنا
سو ہم تمہیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرمِ خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبت میں
اب اور کتنا گنہ گار کرنا چاہتے ہیں
گلِ اُمید فروزاں رہے، تری خوشبو
کہ لوگ اسے بھی گرفتار کرنا چاہتے ہیں
اُٹھائے پھرتے ہیں کب سے عذابِ دربدری
اب اس کو وقفِ رہِ یار کرنا چاہتے ہیں
وہ ہم ہیں، جو تِری آواز سُن کے تیرے ہوئے
وہ اور ہیں کہ جو دیدار کرنا چاہتے ہیں
کتنا چاہا تھا چھپانا اور چھپا کچھ بھی نہیں
اس نے سب کچھ سُن لیا، میں نے کہا کچھ بھی نہیں
میرے ہونے سے ہی تو مشروط ہے ہونا ترا
دیکھنے والا نہ ہو تو آئینہ کچھ بھی نہیں
سر نہ کرتا ہو کوئی، منزلیں بے کار ہیں
چلنے والا ہی نہ ہو تو راستہ کچھ بھی نہیں
اب تو دامن کی طرح خالی ہوئے جاتے ہیں دل
اب تو ہونٹوں پر بجز حرفِ دُعا کچھ بھی نہیں
صرف اپنی روشنی میں طے کرو اپنا سفر
راہ میں جگنو، ستارہ یا دِیا کچھ بھی نہیں
ہم جسے دریافت کرتے ہیں تگ و دو سے سلیمؔ
وہ کہیں موجود ہوتا ہے، نیا کچھ بھی نہیں

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment