Wednesday 28 August 2013

فراق یاراں عجیب رت ہے، نہ سوئے صحرا، نہ گھر گئے ہیں

فراقِ یاراں عجیب رُت ہے، نہ سُوئے صحرا، نہ گھر گئے ہیں
ہم اہلِ ہجراں کی جو روایت تھی، اس سے بالکل مُکر گئے ہیں
عجیب وحشت نژاد آنکھیں تھیں، نیند کے حاشیے کھنچے تھے
عجیب خوابوں کا سلسلہ تھا، چراغ جیسے گزر گئے ہیں
جو پڑھ سکو تو انہیں بھی پڑھنا، بڑے مزے کی حکایتیں ہیں
ہم اپنی تنہائیوں کو لوحِ ہوا پہ تحریر کر گئے ہیں
یہ شہرِ فن ہے، یہاں مسلسل ریاضتوں کا ثمر ہے، ورنہ
یہاں بھی اہلِ کمال لوگوں سے کیسے کیسے ہُنر گئے ہیں
کِسے خبر ہے ہمارے نقشِ قدم بھی راہوں کی دُھول ٹھہریں
کوئی بتائے کہ ہم اسیرانِ شامِ وعدہ بکھر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں چاند تارے تھے، ابرِ گِریہ تھا، کہکشاں تھی
تم ایسے موسم میں آئے ہو جب، تمام دریا اُتر گئے ہیں

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment