Saturday 31 August 2013

ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے

ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے
ساقی سے مِلے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے
کچھ اسکے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے
اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈُوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے
ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے
ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چُبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے
آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے
ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے
کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رُخسار و لب و گوش میں رہیے
یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے
حقیؔ! وہی اب پھر غمِ ایّام کا دُکھڑا
یہ محفلِ رِنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

شان الحق حقی

No comments:

Post a Comment