Saturday 24 August 2013

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

 گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
 لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
 میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
 مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
 یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
 آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے
 وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں
 ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے
 اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے
 بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے
 کیا قیامت ہے کہ خاطؔر کشتۂ شب بھی تھے ہم
 صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

خاطر غزنوی

No comments:

Post a Comment